تفسير ابن كثير



سورۃ هود

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ ذَلِكَ يَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَشْهُودٌ[103] وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَعْدُودٍ[104] يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ[105]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک اس میں اس شخص کے لیے یقینا ایک نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرے، یہ وہ دن ہے جس کے لیے (سب) لوگ جمع کیے جانے والے ہیں اور یہ وہ دن ہے جس میں حاضری ہو گی۔ [103] اور ہم اسے مؤخر نہیں کر رہے، مگر ایک گنے ہوئے وقت کے لیے۔ [104] جس دن وہ (وقت) آئے گا، کوئی شخص اس کی اجازت کے سوا بات نہیں کرے گا، پھر ان میں سے کوئی بد بخت ہوگا اور کوئی خوش قسمت۔ [105]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے نشان عبرت ہے جو قیامت کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ وه دن جس میں سب لوگ جمع کئے جائیں گے اور وه، وه دن ہے جس میں سب حاضر کئے جائیں گے [103] اسے ہم جو ملتوی کرتے ہیں وه صرف ایک مدت معین تک ہے [104] جس دن وه آجائے گی مجال نہ ہوگی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات بھی کر لے، سو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی نیک بخت [105]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ان (قصوں) میں اس شخص کے لیے جو عذاب آخرت سے ڈرے عبرت ہے۔ یہ وہ دن ہوگا جس میں سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے اور یہی وہ دن ہوگا جس میں سب (خدا کے روبرو) حاضر کیے جائیں گے [103] اور ہم اس کے لانے میں ایک وقت معین تک تاخیر کر رہے ہیں [104] جس روز وہ آجائے گا تو کوئی متنفس خدا کے حکم کے بغیر بول بھی نہیں سکے گا۔ پھر ان میں سے کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت [105]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 103، 104، 105،

ہلاکت اور نجات، ٹھوس دلائل ٭٭

” کافروں کی اس ہلاکت اور مومنوں کی نجات میں صاف دلیل ہے ہمارے ان وعدوں کی سچائی پر جو ہم نے قیامت کے بارے میں کئے ہیں جس دن تمام اول و آخر کے لوگ جمع کئے جائیں گے۔ ایک بھی باقی نہ چھوٹے گا اور وہ بڑا بھاری دن ہو گا تمام فرشتے، تمام رسول، تمام مخلوق حاضر ہو گی۔ حاکم حقیقی عادل کافی انصاف کرے گا۔ قیامت کے قائم ہونے میں دیر کی وجہ یہ ہے کہ رب یہ بات پہلے ہی مقرر کر چکا ہے کہ اتنی مدت تک دنیا بنی آدم سے آباد رہے گی۔ اتنی مدت خاموشی پر گزرے گی پھر فلاں وقت قیامت قائم ہو گی۔ جس دن قیامت آ جائے گی۔ کوئی نہ ہو گا جو اللہ کی اجازت کے بغیر لب بھی کھول سکے۔ مگر رحمن جسے اجازت دے اور وہ بات بھی ٹھیک بولے۔ تمام آوازیں رب رحمن کے سامنے پست ہوں گی “۔

بخاری و مسلم کی حدیث شفاعت میں ہے اس دن صرف رسول علیہم السلام ہی بولیں گے اور ان کا کلام بھی صرف یہی ہو گا کہ یا اللہ سلامت رکھ، یا اللہ سلامتی دے ۔ [صحیح بخاری:806] ‏‏‏‏

مجمع محشر میں بہت سے تو برے ہوں گے اور بہت سے نیک۔ اس آیت کے اترنے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کہ پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اعمال اس بنا پر ہیں جس سے پہلے ہی فراغت کر لی گئی ہے یا کسی نئی بناء پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ اس حساب پر جو پہلے سے ختم ہو چکا ہے جو قلم چل چکا ہے لیکن ہر ایک کے لیے وہی آسان ہو گا۔ جس کے لیے اس کی پیدائش کی گئی ہے ۔ [سنن ترمذي:3111،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
3919



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.